حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،چین میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک نئی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ چینی حکومت کس طرح اقیلتوں بالخصوص مسلمانوں اور ان کے مذہبی مقامات بشمول مساجد پر اپنا کنٹرول بڑھا رہی ہے، دوسری جانب چینی حکومت نے اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد اعلان کیا ہے کہ وہ مسلم انتہا پسندی کو روکنے کے لیے اس طرح کی پابندیاں عائد کر رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے ایک نئی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ چینی حکومت اس ملک کی مساجد کو بند یا مسمار کرنے کے بعد دوبارہ استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے، ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، یہ اقدامات چین میں اسلام کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک منظم کوشش کا حصہ ہے، چین میں تقریباً 20 ملین مسلمان آباد ہیں، اگرچہ چین سرکاری طور پر ایک ملحد ملک ہے؛ لیکن اس ملک کے حکام اعلان کرتے ہیں کہ چین میں تمام مذاہب آزاد ہیں، تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ مسلمانوں پر زیادہ کنٹرول کرنا اور ان کو محدود کرنا چاہتا ہے۔
چین میں ہیومن رائٹس واچ کی سربراہ مایا وانگ نے مغربی میڈیا کو بتایا کہ چین میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی سے متعلق جو رپورٹ شائع کی گئی ہے وہ رپورٹ صرف شمال مغربی چین کے سنکیانگ علاقے میں ایغور مسلمانوں کے خلاف منظم انسانی حقوق کی پامالی کو بیان کرتی ہے۔لیکن دوسری جانب نے بیجنگ ان الزامات کی تردید کی ہے۔
تحقیقی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ چینی مسلمانوں کی اکثریت اس ملک کے شمال مغرب کے صوبے سنکیانگ، چنگھائی، گانسو اور ننگزیا میں رہتی ہے، دریں اثنا، انسانی حقوق کے ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ ننگزیا خود مختار علاقے کے مسلم گاؤں لیاوقیاؤ میں چھ میں سے تین مساجد کے گنبد اور مینار تباہ ہو کر دئے گئے ہیں، ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے حاصل کردہ سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ لیاوقیاؤ گاؤں کی ایک مسجد میں ایک گول گنبد کو اکتوبر 2018 اور جنوری 2020 کے درمیان چینی طرز کے پگوڈا (مہاتما بدھ کے وہ مندر جو ایک خاص طرز تعمیر کے حامل ہیں)سے بدل دیا گیا تھا، اسی طرح مسجد کے وضو خانے کا اندرونی حصے، جو روزانہ کی پانچ نمازوں کے لیے ضروری ہے، اس کو بھی منہدم کر دیا گیا۔
چین نے اب تک سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تمام الزامات کی تردید کی ہے، اس حوالے سے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مسلم صوبے سنکیانگ سے شائع ہونے والی دستاویزات درست نہیں ہیں اور سنکیانگ امنیت اور خوشحالی برقرار ہے، اور اس کے باشندے اطمینان بخش زندگی گزار رہے ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں ہمارے کنٹرول کا مقصد دہشت گردی کو روکنا اور اسلامی انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے اور یہ کہ جن کیمپوں میں مسلمانوں کو رکھا گیا ہے وہ دہشت گردی سے لڑنے کے لیے قیدیوں کو دوبارہ تربیت دینے کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں، چین نے بڑے پیمانے پر نس بندی کے ذریعے اویغور آبادی کو کم کرنے کی کوششوں کے دعوؤں کو بھی بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا کہ مسلمانوں پر زور و زبردستی اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے کے دعوے مکمل بے بنیاد ہیں۔